Engineer Mirza Ali

Kia AORAT (WOMEN) ka QABER peh jana aur DUAA mangna SAHEH hai ??? (By Engineer Muhammad Ali Mirza)

Kia AORAT (WOMEN) ka QABER peh jana aur DUAA mangna SAHEH hai ??? (By Engineer Muhammad Ali Mirza)

Today topic is :Kia AORAT (WOMEN) ka QABER peh jana aur DUAA mangna SAHEH hai ??? (By Engineer Muhammad Ali Mirza).

Video Information
Title Kia AORAT (WOMEN) ka QABER peh jana aur DUAA mangna SAHEH hai ??? (By Engineer Muhammad Ali Mirza)
Video Id TWEIjjCfyLQ
Video Source https://www.youtube.com/watch?v=TWEIjjCfyLQ
Video Image 1678749152 990 hqdefault
Video Views 97678
Video Published 2017-05-05 16:43:31
Video Rating 5.00
Video Duration 00:07:50
Video Author Engineer Muhammad Ali Mirza – Official Channel
Video Likes 1303
Video Dislikes
Video Tags #Kia #AORAT #WOMEN #QABER #peh #jana #aur #DUAA #mangna #SAHEH #hai #Engineer #Muhammad #Ali #Mirza
Download Click here

Engineer Muhammad Mirza Ali


Mirza Ali

Muhammad Ali Mirza was born on 4 October 1977 in Jhelum, a city in Punjab, Pakistan. He is a 19th grade mechanical engineer in a government department.

Muhammad Ali Mirza, commonly known as Engineer Muhammad Ali Mirza is a Pakistani Islamic scholar and commentator.

Is engineer Muhammad Ali Mirza Sunni or Shia?

engineer mirza ali

Engineer Muahmmad Ali Mirza is Sunni, Known "Mulim ilmi kitabi".

How do I contact engineer Muhammad Ali?

Engineer Muhammad Ali Mirza

You can call on this phone number, which is "03215900162", and discuss your problem with them.

Who is Mirza Ali of Pakistan?

muhammad mirza ali

Muhammad Ali Mirza, commonly known as Engineer Muhammad Ali Mirza is a Pakistani Islamic scholar and commentator.

What is the age of engineer Muhammad Ali Mirza?

mirza ali

(Engineer Muhammad Ali Mirza) Born: October 4, 1977 (age 46 years) Place: Jhelum Country: Pakistan

What is religion of Engineer Muhammad Ali Mirza?

Engineer Muhammad Ali Mirza is Muslim by religion. He is also known as muslim ilmi kitabi. He says " I,m Muslim Ilmi Kitabi".

What is the Education of Engineer Muhammad Ali Mirza?

He is an engineer by profession. And also a "Pakistani Islamic Scholar". He studied in "University of Engineering and Technology, Taxila".

Engineer Muhammad Ali Mirza

Muhammad Ali Mirza, commonly known as Engineer Muhammad Ali Mirza is a Pakistani Islamic scholar and commentator. Engineer Muhammad Ali Mirza is an acclaimed Islamic scholar whose passion for learning and understanding the Quran and Hadith has earned him a distinguished place in the Muslim world.

38 Comments

  1. یہ جناب خود کہتے ہیں کہ ہمارے نبى محمد صلى الله عليه وسلم نے اپنی زوجہ امہات المؤمنين عائشة صديقه رضي الله عنها سے کہ اے عائشة صديقه رضي الله عنها اگر آپ نے ہمیں نا بتایا تو وہ غیب کا جاننے والا مجھے تو بتا ہی دیگا پھر کہتے ہیں کہ نبى صلى الله عليه وسلم عالم الغيب تھے اگر عالم الغيب ہوتے تو ایسا کہتے ہمیں سب کچھ معلوم ہی پڑ جاتا
    وہ غیب کا جاننے والا سے مراد (اللہ)

  2. Kisi Ke pass Islam Ke tabliq Ka tariqa Ke ketab , ya Islam Ke tabliq Ka tariqa malum ho to mujha batai , call ya what's up kare my number is 09826252385,,.

  3. یعنی امام قاضی سے استفتاء ہوا کہ عورتوں کا مقابر کو جانا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا: ایسی جگہ جواز و عدم جواز نہیں پوچھتے‘ یہ پوچھو کہ اس میں عورت پر کتنی لعنت پڑتی ہے‘ جب گھر سے قبور کی طرف چلنے کا ارادہ کرتی ہے اﷲ اور فرشتوں کی لعنت میں ہوتی ہے۔ جب گھر سے باہر نکلتی ہے سب طرفوں سے شیطان اسے گھیر لیتے ہیں۔ جب قبر تک پہنچتی ہے میت کی روح اس پر لعنت کرتی ہے جب واپس آتی ہے اﷲ کی لعنت میں ہوتی ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

    امام احمد رضا کی ان تحقیقات سے خوب روشن ہوگیا کہ عورتوں کو مسجد میں جاکر نماز پڑھنا ممنوع ہے تو بھلا کسی مزار و قبرستان میں جانا کیسے جائز ہوگا؟ عورتوں کو مسجد میں جانے سے روکنے کے سلسلے میں اعلیٰ حضرت نے الاصبتہ فی تمییز الصحابۃ سے ایک نصیحت آموز روایت اس طرح بیان فرمائی:

    حضرت سیدنا زبیر بن العوام رضی اﷲ عنہ نے اپنی زوجہ مقدسہ صالحہ‘ عابدہ‘ زاہدہ‘ تقیہ‘ نقیہ‘ حضرت عاتکہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو اس معنی پر (یعنی مسجد میں جاکر نماز پڑھنا) عملی طور سے متنبہ کرکے حاضری مسجد کریم مدینہ طیبہ سے باز رکھا۔ ان پاک بی بی کو مسجد کریم سے عشق تھا (حضرت زبیر بن العوام) منع فرماتے وہ نہ مانتیں۔ ایک روز انہوں نے یہ تدبیر کی کہ عشاء کے وقت اندھیری رات میں ان کے جانے سے پہلے راہ میں کسی دروازے میں چھپ رہے‘ جب یہ آئیں اس دروازے سے آگے بڑھی تھی کہ انہوں نے نکل کر پیچھے سے ان کے سر مبارک پر ہاتھ مارا اور چھپ رہے۔ حضرت عاتکہ نے کہا انا ﷲ فسد الناس ہم اﷲ کے لئے ہیں‘ لوگوں میں فساد آگیا۔ یہ فرما کر مکان کو واپس آئیں اور پھر جنازہ ہی نکلا۔ تو حضرت زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے انہیں یہ تنبیہ فرمائی کہ عورت کیسی ہی صالحہ ہو‘ اس کی طرف سے اندیشہ ہی سہی فاسق مردوں کی طرف سے اس پر خوف کا کیا علاج ۔

    یہاں اس امر کی بھی وضاحت ضروری ہے کہ عورت شرعا کس وقت گھر سے باہر نکل سکتی ہے۔ تو اس سلسلے میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی امام فقیہ ابواللیث رحمۃ اللہ علیہ وفتاویٰ خلاصہ و فتح القدیر وغیرہا سے نقل فرمودہ یہ نص کافی و وافی ہے۔یجوز للخروج ان یاذن لھا بالخروج الی سبعۃ مواضع ازا استا ذنتہ زیارۃ الا بوین وعیادتھا وتعزیتھما او احدھما وزیارۃ المحارم فان کانت قابلۃ اوغاسلۃ او کان لہا علی اخر حق او کان لاخر علیہا حق تخرج بالاذن ولغیر الاذن والحج علی ہذا وفیما عدا ذلک من زیارۃ الاجانب وعیادتہم والولیمۃ لایاذن لہا لو اذن وخرجت کانا عاصیین ۔

    شوہر عورت کو سات مقامات میں نکلنے کی اجازت دے سکتا ہے

    (۱) ماں باپ دونوں یا کسی ایک کی ملاقات

    (۲) ان کی عیادت

    (۳) ان کی تعزیت

    (۴) محارم کی ملاقات

    (۵) اور اگر دایہ ہو

    (۶) یا مردہ کو نہلانے والی ہو

    (۷) یا اس کا کسی دوسرے پر حق ہو یا دوسرے کا اس کے اوپر حق ہو تو اجازت سے اور بلا اجازت دونوں طرح جاسکتی ہے۔

  4. صحیح البخاری و مسلم شریف کی حدیث ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے بھی اس فتویٰ کی تائید ہوتی ہے۔ لو ادرک رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم مااحدث النساء لمنعھن المسجد کما منعت نساء بنی اسرائیل ۔

    ترجمہ : اگر نبیﷺ ملاحظہ فرماتے جو باتیں عورتوں نے اب پیدا کی ہیں تو ضرور انہیں مسجد سے منع فرمادیتے جیسے بنی اسرائیل کی عورتیں منع کردی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ تابعین کے زمانہ سے ہی ائمہ دین نے (مسجد میں آنے سے) مخالفت شروع فرمادی۔ پہلے جوان عورتوں کو پھر بوڑھیوں کو بھی حالانکہ وہ زمانہ صالحات کا زمانہ تھا۔ فیوض و برکات کا زمانہ تھا اور اب العیاذ باﷲ بلکہ عنایہ امام اکمل الدین میں ہے کہ امیر المومنین فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے عورتوں کو مسجد سے منع فرمایا۔ وہ ام المومنین حضرت صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے پاس شکایت لے گئیں ۔ فرمایا : لو علم النبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ماعلم عمر ما اذن لکن فی الخروج ۔

    ترجمہ : اگر نبیﷺ یہ دیکھتے جو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے دیکھا تو وہ بھی تمہیں مسجد جانے کی اجازت نہ دیتے۔

    یہی امام اکمل الدین فرماتے ہیں : فافتح بہ علماونا ومنعوا الشواب عن الخروج مطلقا اما العجائز فمنعھن ابو حنیفۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ عن الخروج فی الظہر والعصر دون الفجر والمغرب والعشاء والفتویٰ الیوم علی کراہۃ حضور ہن فی الصلوات کلھا لظہور الفساد ۔

    اسی سے ہمارے علماء نے استدلال کیا اور جو ان عورتوں کو جانے سے مطلقا منع فرمادیا۔ رہ گئیں بوڑھی عورتیں ان کے لئے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ نے ظہر و عصر میں جانے سے ممانعت فرمائی اور فجر‘ مغرب اور عشاء میں اجازت رکھی اور آج فتویٰ اس پر ہے تمام نمازوں میں بھی ان کی بھی حاضری منع ہے۔ اس لئے کہ خرابیاں پیدا ہوچکی ہیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

    عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں ہے کہ حضرت عبداﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں : عورت سراپا شرم کی چیز ہے۔ سب سے زیادہ اﷲ عزوجل سے قریب اس وقت ہوتی ہے جب اپنے گھر کی تہہ میں ہوتی ہے اور جب باہر نکلے شیطان اس پر نگاہ ڈالتا ہے اور حضرت عبداﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما جمعہ کے دن کھڑے ہوکر کنکریاں مار کر عورتوں کو مسجد سے نکالتے اور امام ابراہیم نخعی تابعی استاذ الاساتذہ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنی مستورات کو جمعہ و جماعات میں نہ جانے دیتے۔ مذکورہ بالا احادیث و اقوال فقہاء بیان کرنے کے بعد اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:جب ان خیر کے زمانوں ان عظیم فیوض و برکات کے وقتوں میں عورتیں منع کردی گئیں‘ اور کاہے سے‘ حضور مساجد وشرکت جماعات سے‘ حالانکہ دین متین میں ان دونوں (مسجد میں جانا اور نماز باجماعت) کی شدید تاکید ہے تو کیا ان منہ شرور (برے دور) میں ان قلیل یا موہوم (خیالی) فیوض کے حیلے سے عورتوں کی اجازت دی جائے گی؟ وہ بھی کاہے کی زیارت‘ قبور کو جانے کی۔جو شرعا موکد (تاکید کیا گیا) نہیں اور خصوصا ان میلوں ٹھیلوں میں جو خدا ناترسوں (خدا سے نہ ڈرنے والوں) نے مزارات کرام پر نکال رکھے ہیں۔ یہ کس قدر شریعت مطہرہ سے منافقت ہے۔ آگے بڑھ کر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی سے نقل فرماتے ہیں۔سئل القاضی عن جواز خروج النساء الی المقابر قال لایسال عن الجواز والفساد فی مثل ہذا وانما یسال عن مقدار ما یلحقہا عن اللعن فبہا واعلم انہا کلما قصدت الخروج کانت فی لعنۃ اﷲ وملائکتہ واذا خرجت تحفہا الشیاطین من کل جانب واذا اتت القبور یلعنھا روح المیت واذا رجعت کانت فی لعنۃ اﷲ ۔

  5. اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مجدد دین و ملت شاہ احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمتہ اﷲ علیہ کی تعلیمات اقوام عالم کے لئے مشعل راہ سے کم نہیں کیونکہ آپ نے اپنی سینکڑوں تصنیفات میں دینیات کے ساتھ ساتھ سیاسیات‘ معاشیات‘ و عمرانیات سمیت حیات انسانی کی فلاح و نجات کے متعدد پہلو اجاگر کئے ہیں۔ فاضل بریلوی کا زمانہ مسلمانوں کا نظریاتی اور ریاستی انحطاط کا دور تھا۔ دنیا بھر میں مسلمان مطعون و مظلوم تھے۔ گویا مسلمان ہونا دشنام سے کم نہ تھا۔ آشوب کی اس گھڑی میں حضرت امام احمد رضا نے اپنی فکری اصابت‘ خاندانی وجاہت‘ علمی لیاقت اور فقیہانہ تدبر کے ساتھ نہ صرف مذہب اسلام کا پرچم بلند کیا بلکہ حقائق سے مفرور اور حالات سے مایوس قوم مسلم میں جینے کی ایک نئی امنگ پیدا کردی۔ مسلمانوں کے دل و دماغ میں محبت رسولﷺ کی شمع فروزاں کرکے حرماں نصیبی اور حسرت ویاس کے اندھیرے دور کردیئے۔ مسلمانان ہند کو بطور خاص اپنا دینی تشخص نمایاں کرنے کی عملی تدبیریں بتائیں۔ غیر مسلم اقوام کے ساتھ مذہبی و سماجی اختلاط کے نقصانات واضح کئے۔ دشمنان اسلام کی مکروہ سازشوں کو طشت ازبام کیا۔ اہل ایمان کو بڑی دردمندی کے ساتھ ایمانیات سے آگاہ کیا۔ انہیں فرائض و واجبات سے لے کر سنن و مستحباب اور عقیدہ و نظریہ سے لے کر قول وفعل تک ہر پہلو خوب خوب سمجھادیا۔ انہوں نے اپنی تحریر و تقریر کے ذریعہ اسلامی معاشرہ میں پیدا ہونے والی بدعتوں اور غیر شرعی رسوم و رواج کا شدت سے رد کیا۔

    آپ کے فتاویٰ نے ہر ایسی بات کی اصلاح کی جو کسی بھی قسم کی قباحت و گناہ کی باعث بن سکتی تھی۔ اختلافی نوعیت کے مسائل میں بھی آپ نے ہمیشہ اجل فقہاء اور اکابر محققین کا رستہ اختیار کیا۔ جس وجہ سے آپ کا قلم افراط و تفریط سے محفوظ رہا اور آپ کو کبھی اپنے کسی فتوے سے رجوع نہ کرنا پڑا اور نہ ہی آپ کی تحریر کی تغلیظ ہوسکی۔ زیر نظر مضمون مزارات پر عورتوں کی حاضری اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کی کتاب ’’جمل النور‘‘ سے ماخوذ ہے جس میں آپ نے ایسے لوگوں کی اصلاح فرمائی ہے جو مزارات پر عورتوں کی حاضری اور مزارات پر عورتوں کے حلقہ ذکر و توجہ کے قائل ہیں اور اپنی دانست میںدلیلیں بھی وضع کرتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت نے ایسے حضرات کے تمام اقوال کا نہایت تسلی بخش جواب تحریر فرماتے ہوئے اہل اسلام کو یوں نصیحت فرمائی۔

    نظر بحالات نساء (عورتوں کے حالات دیکھتے ہوئے) سوائے حاضری روضۂ انور (سید ابرارﷺ) کہ واجب یا قریب بواجب ہے۔ مزارات اولیاء یا دیگر قبور کی زیارت کو عورتوں کا جانا باتباع غنیۃ علامہ محقق ابراہیم حلبی ہرگز پسند نہیں کرتا۔ خصوصا اس طوفان بے تمیزی رقص و مزامیر و سرور (ڈانس‘ گانا‘ باجا وغیرہ) میں جو آج کل جہال نے اعراس طیبہ میں برپا کررکھا ہے اس کی شرکت میں تو عوام رجال کو بھی پسند نہیں رکھتا۔ یعنی ڈھول باجے‘ تاشے والے عرسوں میں عورتیں تو عورتیں امام اہل سنت مردوں کا جانا بھی پسند نہیں فرماتے۔ اس ضمن میں ایک تفصیلی سوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت نے ایک تفصیلی فتویٰ ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔ زمانہ نبوی میں عورتوں کو مسجد میں آنے‘ عیدین کی نماز میں حاضر ہونے کی اجازت تھی لیکن بعد ازاں یہ اجازت اٹھالی گئی جیسا کہ در مختار میں ہے۔

    یکرہ حضور ہن الجماعۃ والجمعۃ وعید ووعظ مطلقا ولوعجوزا لیلا علی المذہب المفتی بہ لفساد الزمان ۔ ترجمہ : جماعت میں عورتوں کی حاضری اگرچہ جمعہ عید اور وعظ کے لئے ہو‘ مطلقا مکروہ ہے۔ اگرچہ بوڑھی عورت رات کو جائے یہی وہ مذہب ہے جس پر فساد زمانہ کے باعث فتویٰ ہے۔

  6. : یعنی امام قاضی سے استفتاء ہوا کہ عورتوں کا مقابر کو جانا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا: ایسی جگہ جواز و عدم جواز نہیں پوچھتے‘ یہ پوچھو کہ اس میں عورت پر کتنی لعنت پڑتی ہے‘ جب گھر سے قبور کی طرف چلنے کا ارادہ کرتی ہے اﷲ اور فرشتوں کی لعنت میں ہوتی ہے۔ جب گھر سے باہر نکلتی ہے سب طرفوں سے شیطان اسے گھیر لیتے ہیں۔ جب قبر تک پہنچتی ہے میت کی روح اس پر لعنت کرتی ہے جب واپس آتی ہے اﷲ کی لعنت میں ہوتی ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

    امام احمد رضا کی ان تحقیقات سے خوب روشن ہوگیا کہ عورتوں کو مسجد میں جاکر نماز پڑھنا ممنوع ہے تو بھلا کسی مزار و قبرستان میں جانا کیسے جائز ہوگا؟ عورتوں کو مسجد میں جانے سے روکنے کے سلسلے میں اعلیٰ حضرت نے الاصبتہ فی تمییز الصحابۃ سے ایک نصیحت آموز روایت اس طرح بیان فرمائی:

    حضرت سیدنا زبیر بن العوام رضی اﷲ عنہ نے اپنی زوجہ مقدسہ صالحہ‘ عابدہ‘ زاہدہ‘ تقیہ‘ نقیہ‘ حضرت عاتکہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو اس معنی پر (یعنی مسجد میں جاکر نماز پڑھنا) عملی طور سے متنبہ کرکے حاضری مسجد کریم مدینہ طیبہ سے باز رکھا۔ ان پاک بی بی کو مسجد کریم سے عشق تھا (حضرت زبیر بن العوام) منع فرماتے وہ نہ مانتیں۔ ایک روز انہوں نے یہ تدبیر کی کہ عشاء کے وقت اندھیری رات میں ان کے جانے سے پہلے راہ میں کسی دروازے میں چھپ رہے‘ جب یہ آئیں اس دروازے سے آگے بڑھی تھی کہ انہوں نے نکل کر پیچھے سے ان کے سر مبارک پر ہاتھ مارا اور چھپ رہے۔ حضرت عاتکہ نے کہا انا ﷲ فسد الناس ہم اﷲ کے لئے ہیں‘ لوگوں میں فساد آگیا۔ یہ فرما کر مکان کو واپس آئیں اور پھر جنازہ ہی نکلا۔ تو حضرت زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے انہیں یہ تنبیہ فرمائی کہ عورت کیسی ہی صالحہ ہو‘ اس کی طرف سے اندیشہ ہی سہی فاسق مردوں کی طرف سے اس پر خوف کا کیا علاج ۔

    یہاں اس امر کی بھی وضاحت ضروری ہے کہ عورت شرعا کس وقت گھر سے باہر نکل سکتی ہے۔ تو اس سلسلے میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی امام فقیہ ابواللیث رحمۃ اللہ علیہ وفتاویٰ خلاصہ و فتح القدیر وغیرہا سے نقل فرمودہ یہ نص کافی و وافی ہے۔یجوز للخروج ان یاذن لھا بالخروج الی سبعۃ مواضع ازا استا ذنتہ زیارۃ الا بوین وعیادتھا وتعزیتھما او احدھما وزیارۃ المحارم فان کانت قابلۃ اوغاسلۃ او کان لہا علی اخر حق او کان لاخر علیہا حق تخرج بالاذن ولغیر الاذن والحج علی ہذا وفیما عدا ذلک من زیارۃ الاجانب وعیادتہم والولیمۃ لایاذن لہا لو اذن وخرجت کانا عاصیین ۔

    شوہر عورت کو سات مقامات میں نکلنے کی اجازت دے سکتا ہے

    (۱) ماں باپ دونوں یا کسی ایک کی ملاقات

    (۲) ان کی عیادت

    (۳) ان کی تعزیت

    (۴) محارم کی ملاقات

    (۵) اور اگر دایہ ہو

    (۶) یا مردہ کو نہلانے والی ہو

    (۷) یا اس کا کسی دوسرے پر حق ہو یا دوسرے کا اس کے اوپر حق ہو تو اجازت سے اور بلا اجازت دونوں طرح جاسکتی ہے۔

  7. Allha o Akbar Jnb Motaram ul mokam ustad ul hofaz Engineer M Ali mirza sb both acha laga ap na ya masala jo samjay ha Allha ap ko ajar i azeem ata kara ameen

Back to top button